Urdu shayari, Urdu poetry

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


درد سنجوکر رو لیں گے

لیکن اف نہ بولیں گے

ڈال دو سر پر تہمت تم

بوجھ سمجھ کر ڈھو لیں گے

چھن بھی گئی گر سر سے چھت

پیڑ     تلے  ہم    سو   لیں  گے

بغض و حسد رکھنے والے

دوست بھی اک دن ہو لیں گے

مثل سمندر موتی سے

راز وہ دل کے کھو لیں گے

دینا اگر ہو   امرت  دیں

زہر وہ کب تک گھولیں گے

اپنا پرایا کہئے کیوں

ہم تو سبھی کے ہو لیں گے

ساتھ دیا نہ تم نے  پھر

"ساتھ کسی کے ہو لیں گے"

جاگتے گزری عمریں اب

نیند لگی تو سو لیں گے

کہئے قمر جی کہئے کچھ

اب جو نہیں کب بولیں گے

قمر شاھدی آسام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل۔,۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کوچۂ صیاد میں کیا کیا کرم ہو جاتے ہیں

لوٹ کر آتے نہیں کیوں واں کبھی جو جاتے ہیں

جنکے سائے میں کئی صدیاں سنائیں داستاں

بیج اک ایسے شجر کا چل یہاں بو جاتے ہیں

مار کھاکر بھی ہتھوڑے کے جو اف کرتے نہیں

بن کے مورت بس وہی پتھر خدا ہو جاتے ہیں

ہم ہیں وہ بدبخت راہی جو کہ منزل کے قریب

آ تو جاتے ہیں مگر وہ راستے کھو جاتے ہیں

جنکے میں لطف و کرم کے صدقے ہوں مٹی تلے

میری تربت پر وہی تو چپکے سے رو جاتے ہیں

ہم سے اپنی عمر کے اک پل گزارے نا گئے

جانے کیسے لوگ اسکو صدیوں تک ڈھو جاتے ہیں

کیوں خفا ہوتے ہو تم بس کہنا تھا حافظ خدا

شکریہ اے دوستو تم خوش رہو لو جاتے ہیں

بات کافی ہو چکی اب رات کافی ہو چکی

نیند بھی غالب قمر ہے چلئے اب سو جاتے ہیں

قمر شاھدی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی کے آنکھوں کا پر حسن خواب ہم بھی تھے

زمانہ گزرا یہ کہتے جناب ہم بھی تھے

نہیں گوارا انہیں دیکھنا بھی رخ میرا

کہ جن کے واسطے کار ثواب ہم بھی تھے

پڑے ہوئے ہیں زمین پر تو تم نہ اتراؤ

تمہاری طرح کبھی آفتاب ہم بھی تھے

مثال دیتی تھی دنیا ہماری الفت کی

جنوں کے درس میں شامل کتاب ہم بھی تھے

نہ بھولو جل کے بھی رسی کے بل نہیں جاتے

کسی زمانے میں ہوتے نواب ہم بھی تھے

سبق یہ یاد ہی رکھنا خوشی ہے وقتی یہ

"اسی دیار میں عزت مآب ہم بھی تھے"

قمر چلے ہیں ڈبونے خودی کو ساغر میں

وفا کی راہ میں اک کامیاب ہم بھی تھے


قمر شاھدی

Comments

Popular posts from this blog

غزل

دوہے