Posts

غزل

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔           غزل         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گرویدہ ہو گئے ہو جو حسن و جمال کے مجنوں کے جا نشیں ہو کہ رانجھا ہو حال کے محنت کے بل پہ سرخ رو ہوتا ہے آدمی  سنورے ہیں کیا نصیب بھی سکّہ اچھال کے کیوں جاتے ہو ابھی سے اجالا کہاں ہوا  موجود دائرے میں ہیں ہالے ہلال کے ہم نے لہو سے سینچ کر یہ گلستاں دیا اس کو خدا کے واسطے رکھنا سنبھال کے تاریک شب ہے راہ میں بیٹھے ہیں راہزن چلنا ہے نا گزیر تو چل دیکھ بھال کے بدلے میں تم وفاؤں کے کرتے رہے جفا کتنے غلط جواب ہیں سادہ سوال کے پتھر بدست شہر ہے راہ فرار گم مفلوج ہوکے رہ گئے عنقا خیال کے غافل ہوئے تو آگئے ٹھوکر میں دہر کی خود ذمہ دار لوگ ہیں اس خستہ حال کے تہذیب نو کی ایسی عنایت ہوئی کہ اب "کچھ لوگ رہ گئے ہیں پرانے خیال کے" جب تک کرے نہ بات اثر قلب خلق پر مطلوب اے قمر نہیں کچھ قیل و قال کے قمر شاھدی آسام

دوہے

دھرتی بونی ہوگئی، جی ہو اب کس اور غم سے ناتا جوڑ لے، سکھ کی ہوگی بھور  منوا بیاکل جی اٹھے، نینا کرے سنگھار جب آئے پردیش سے، مورے پیا کے تار  رستے میں پنگھٹ کے پی، بیٹھے آس لگائےہہائے ہائےجوبن نردئی، گھونگٹ​ دے سرکائے ساچی بولوں اے سکھی،جھوٹ نچائے  جھوٹوں پر تو جگ ہنسے، سچ پہ آئے نہ آنچ بانی بولو پریت کی، "منٹو" جی کے سنگ جیسے بولے ہے "قمر"، اب دوہے کے رنگ

Urdu shayari, Urdu poetry

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ درد سنجوکر رو لیں گے لیکن اف نہ بولیں گے ڈال دو سر پر تہمت تم بوجھ سمجھ کر ڈھو لیں گے چھن بھی گئی گر سر سے چھت پیڑ     تلے  ہم    سو   لیں  گے بغض و حسد رکھنے والے دوست بھی اک دن ہو لیں گے مثل سمندر موتی سے راز وہ دل کے کھو لیں گے دینا اگر ہو   امرت  دیں زہر وہ کب تک گھولیں گے اپنا پرایا کہئے کیوں ہم تو سبھی کے ہو لیں گے ساتھ دیا نہ تم نے  پھر "ساتھ کسی کے ہو لیں گے" جاگتے گزری عمریں اب نیند لگی تو سو لیں گے کہئے قمر جی کہئے کچھ اب جو نہیں کب بولیں گے قمر شاھدی آسام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل۔,۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوچۂ صیاد میں کیا کیا کرم ہو جاتے ہیں لوٹ کر آتے نہیں کیوں واں کبھی جو جاتے ہیں جنکے سائے میں کئی صدیاں سنائیں داستاں بیج اک ایسے شجر کا چل یہاں بو جاتے ہیں مار کھاکر بھی ہتھوڑے کے جو اف کرتے نہیں بن کے مورت بس وہی پتھر خدا ہو جاتے ہیں ہم ہیں وہ بدبخت راہی جو کہ منزل کے قریب آ تو جاتے ہیں مگر وہ راستے کھو جاتے ہیں جنکے میں لطف و کرم کے صدقے ہوں مٹی تلے میری تربت پر وہی تو چپکے سے رو جاتے ہیں ہم سے اپنی عمر کے اک پل گزارے نا گئے جانے کیسے لوگ اسکو صدیوں تک ڈ